Monday, November 4, 2013

میرا قاتل میرا محبوب


چند دن پہلے فوربز میگزین (Forbes Magazine) کا اک آرٹیکل نظر سے گزرا جس کے مطابق پاکستان دنیا کی ناخوش ترین ریاستوں میں 108 ویں نمبرپر تھا. بظاھر اس مقالے کی  کوئی وجہ ذھن میں نہ آئ  پر تھوڑی غوروفکر، موجودہ حالات اور سیاسی بیانات نے گویا ذھن کو پیراشوٹ کی مانند کھول دیا



 حکیم‌ الله محسود کی ہلاکت نے پاکستانی قوم اور بالخصوص دائیں بازو کی جماتوں کے لیڈروں کو مایوسی اور غم کے اندھیروں میں  دھکیل  دیا ھے. نہ جانے اب کب شریعت نافذ ہو گی؟ نہ جانے کب قوم میں دوسرا  حکیم‌ الله محسود پیدا ہو گا جو50,000 سے زائد جانوں کے قتل کا ریکارڈ توڑے گا (ریکارڈ اک دن میں نہیں بنا کرتے ) ؟ ایسا لیڈر جو افغان طالبان ، پنجابی طالبان اور القائدہ کی جنگوں کے درمیان اک مضبوط زنجیر کا کردار ادا کررہا تھا ، پاکستانی فوجیوں کی گردنیں کاٹنا اور وہ بھی اس مہارت سے کہ اک انچ بھی اوپر نیچے نہیں۔ ماشاللہ کتنی معصومیت سے قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر کہتا تھا، کفر کے فتوے تو  مفت میں بانٹتا تھا، دہشتگردی اور دھماکوں کی ذمداری بڑے فخر سے قبول کرتا تھا .... اب بھلا  آپ ہی بتائیں اگر ایسا قومی ہیرو مارا جاےُ توکون مسلمان سکھ کا سانس لیگا؟  اور جس قوم کا ایک اور ہیرو چند سال قبل مارا گیا ھو ، جی ہاں میں جناب شیخ اسامہ بن لادن کی بات کر رہا ہوں ....  ایسے اندوہ ناک غموں کے پہاڑ ٹوٹنے پر قوم مسکرانا نہیں بھولے گی تو کیا کرے گی؟     


حکیم‌ الله محسود کی ہلاکت نے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کو بھی شدید رنج و الم  میں مبتلا کردیا ھے. وزیر داخلہ  چودھری نثار علی خان تو فرط غم سےجذبات پر قابو ھی نہ رکھ  سکے ، آنکھیں لال، خون سفید اور غم سے نڈھال لہجے کے ساتھ ایک نہایت جذباتی قسم کی پریس کانفرنس بھی ٹھوک ڈالی، مرحوم کی شان میں زمین اور ڈرون ایک کردیا. اور اسی اثنا میں وزیر اعظم نواز شریف چند دن کے سرکاری دورے  پر  لندن  سے  پاکستان پہونچ گئے



عمران خان جوکے پہلے ہی ملاله یوسفزئ کے نوبل ایوارڈ  کی نامزدگی پر شدید ناراض اور صدمے کا شکار تھے، ان پر تو یہ  بریکنگ نیوز گرم گرم ڈرون میزائل کی طرح برسی . کچھ سوچ کرجذبات پر قابو پایا اور مرحوم سے اظہار یکجہتی کے لئے نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان داغ دیا.  کچھ وقت گزرنے  کے بعد بھی جب  غصہ میں کمی نہ  آئ تو برخلاف روایت تیسری مرتبہ  قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے اور ایک ذھین و فطین اور جذبات سے بھرپور تقریر کر کے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا. نہ جانے کیا وجہ رہی ہو گی جو خان صاحب ، میجر جنرل ثنااللہ کی شہادت پر اس طرح کا جذباتی رد عمل نہ دکھا پائے

جماعت اسلامی کہاں پیچھے رہنے والی تھی ، بوم بوم منور حسن نے تو مرحوم کو شہید کا درجہ دینے میں ذرا بھی توقف نہ کیا اور الله سے دعا فرمائی کے مرحوم کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے. منور حسن صاحب شائد بھول گئے تھے کے کرنل امام اور الله تعالیٰ کی آخری میٹنگ بھی مرحوم نے خود اپنے ہاتھوں سے سیٹ کی تھی.  
    
کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناراضگی بھی پڑھی اور سنی جاسکتی ہے ... سمجھ نہ آیا، آخر صاحب بہادر کیوں ناراض ہیں ؟ مرحوم نے نہ جانے کتنے پاکستانی فوجیوں کی قربانی دیکر، حکومت پاکستان سے ٥ کروڑ روپے اور امریکی حکومت سے ٥ لاکھ ڈالر کا انعام اپنے سر کی قیمت لگوا کر یہ مقام حاصل کیا تھا. ہوسکتا ھے انعام کی رقم نہ ملنے کا غم درحقیقت فوج کی ناراضگی کا سبب ھو ؟     
  
میڈیا نے بھی قوم کو خوش ہونے کا موقع نہیں دیا، مرحوم کے انتقال کی خبرعین اس وقت نشر کی جب پاکستانی کرکٹ ٹیم ساؤتھ افریقہ سے دوسرا ون  ڈے میچ جیتنے والی تھی جبکہ ڈرون حملہ اک دن پہلے ہوچکا تھا اور مرحوم بہتر حوروں سے ملاقات کیلے پہلے ھی روانہ ہوچکے تھے۔  کاش میڈیا کچھ دیر انتظار کرلیتا اور قوم کو کچھ دیر خوش ہونے کا موقع دے دیتا پر..... حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے.   


اگر فوربز میگزین اپنا سروے ممتاز قادری ( جو گورنر سلمان تاثیر مرحوم کے محافظ اور بڑے ادب سے قا تل بھی ہیں) کی پہلی پیشی کے دن کرتا تو پاکستان دنیا کی خوش باش ترین ریاستوں میں پہلے نمبر پر آجاتا..       

    اسی لئے تو کسی نے کیا خوب کہا ھے 
         خوشی کا کیا ھے بھروسہ کہاں بچھڑ جائے.....رہِ حیات میں غم کو بھی ھمسفر رکھنا







   Twitter ID : @fawadrehman



No comments:

Post a Comment