Showing posts with label Karachi. Show all posts
Showing posts with label Karachi. Show all posts

Tuesday, December 1, 2015

میئرکراچی

 میئرکراچی

نہ جعلی جس کی ڈگری ہو
نہ پیشہ جس کا  زمینداری ہو
نہ کاروباری، نا درباری ہو
خان، جمالی، مزاری اور نہ ہی زرداری ہو
نہ رہن سہن جس کا سرداری ہو
نہ ذہنیت جس کی پٹواری ہو
نہ  تبدیلی کی جس میں مکاری ہو
نہ شہرت جس کی بدکاری ہو

نہ دست راست خودکش بمباری ہو

میئر پھر کیسا ہونا چائیے ؟؟؟

میئر تو پڑھا لکھا ہونا چاہئے
میئر تو نوجوان ہونا چاہئے
لب و لہجہ اور زبان معیاری  ہونا چاہئے
"رہنما " اس کا مثالی ہونا چاہئے
میئر کو تو شہر کا سرپرست ہونا چاہئے
میئر کو تو حق پرست ہونا چاہئے

یعنی

میئر تو اپنا ہونا چاہئے

فواد رحمٰن
 


Twitter ID: @fawadrehman

Wednesday, August 13, 2014

Unity, Faith and Discipline - Red, Green and White


"I have no doubt that with unity, faith and discipline we will compare with any nation of the world. You must make up your minds now. We must sink individualism and petty jealousies and make up our minds to serve the people with honesty and faithfulness. We are passing through a period of fear, danger, and menace. We must have faith, unity and discipline."

With those historic words, Quaid-e-Azam set a path in front of the fledgling country which, if followed, would create a strong nation and a proud people. And, as it should have been, Pakistan adopted the concept of the Quaid’s words. The motto of “Unity, Faith, Discipline” was chosen to be the guiding rules for a new-born country. At least in theory.

It did not take generations for this selective amnesia to set in neither did it take much time. All that was needed to lead us astray from our guiding light was abject greed. And so, another motto was born: “Self-absorption, Self-preservation, Selfishness.” In today's Pakistan, these rules seem to be working fine for those who are in power, but at the cost of the powerless. In these times, when the words of the Quaid could have propelled us to the forefront of the world, we limp behind because we chose to forget our concept.

All political parties have shouted “Unity, Faith, and Discipline” from the rooftops at one time or another but none have chosen to follow them. These words have become an empty motto, something to get the attention of the desperate masses, who turn their faces hopefully towards every bright glimmer only to be seared by blinding selfishness.

One political party however has been following the Quaid’s rules all along and that is the MQM. It has always declared its absolute patriotism to Pakistan and had claimed that its guidelines closely follow those set by the Quaid.

MQM has always claimed that its only agenda is the progress and safety of Pakistan-- protecting it from enemies within and without. Since its inception it has been working towards being a party for all Pakistanis, beyond ethnic and linguistic divides. It has been successful in becoming an organization striving for sectarian and religious harmony and united in its goal towards a progressive and peaceful Pakistan.

MQM points its guiding compass towards the day when all the citizens of Pakistan will be Pakistanis and nothing else. Where other parties have exploited the fractures caused by linguistic and ethnic differences, MQM has been the only party with a firm belief that one day there will be a united Pakistan. With such faith comes optimism and fervor to work towards a future which might seem futile to others. When the Army decided to launch operation Zarb-e-Azb, they had the unconditional support of MQM and the party declared as much from multiple platforms. MQM feels that any action that fragments an already delicate ethnic situation can only weaken the country further and those who chose that path are not interested in a united country.

One of the main reasons for the success of MQM as a political party as well as an implement of positive change is the extreme discipline followed by the workers. This discipline has been demonstrated within their own organization as well as public congregations and conventions. People are expected to follow rules and the example is set by the organizers of the party. Where other parties are saying: do as I say and not as I do, MQM leads by example.


On the day we celebrate our independence, we must re-evaluate our path. As Pakistanis we are all fiercely patriotic. We are willing to do everything for our country but we need a guiding star. An unerring compass that shows us a path to a progressive and successful Pakistan. MQM provides that leadership by following the guidelines set forth by our founder: unity, faith, discipline.

Also Published:
ARY Blog


Twitter ID: @fawadrehman

Tuesday, June 10, 2014

اور پھر جیل ٹوٹ گئی


7 جون کا سورج پاکستان میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی پرجوش آواز کے ساتھ طلوع ہوا. آواز کا آنا تھا کہ پانچ دن سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ایم کیو ایم کارکنوں میں جیسے  زندگی کی ایک  نئی لہر سی دور گئی.  کراچی، حیدرآباد، سکھر، پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ امریکا اور برطانیہ کئی شہر الطاف حسین اور  ایم کیو ایم کے نعروں سے گونچ اٹھے  .کوئی خوشی سے رو رہا تھا تو کوئی الله کے حضور سجدے کر رہا تھا تو کوئی اپنا اور دوسرے کا منہ میٹھا کروا رہا تھا، جوشیلے جوان مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین کے ترانے پر جھوم رہے تھے، غرض یہ کے ہر کوئی اپنے انداز میں خوشی منا رہا تھا مگر ان سب میں ایک مشترکہ عزم تھا کہ ان کے اور الطاف حسین کے درمیاں انے والی ہر دیوار اور سازش کا انجام " ناکامی " ہی ہو گا.
   
1987 میں بھی الطاف حسین پر فرضی الزامات لگا کر کراچی کی سینٹرل جیل میں قید کردیا گیا تھا. ایم کیو ایم کے کارکنوں اور  ہمدردوں نے اپنےقائد کی رہائی کے لیےعوامی مہم اور احتجاج کا آغاز کیا، بلاآخر حکومت وقت نے الطاف حسن پر تمام جھوٹے مقدمات ختم کر کے ان کو بری کرنے کا حکم دیا، جیل انتظامیہ نے رہائی میں تاخیر کی تو عوام نے جیل کی دیوارتوڑ کر اپنے محبوب قائد الطاف حسین کو آزاد کروایا.  یہ واقعہ میرا آنکھوں دیکھا ہے  ، گھرآکر والد صاحب کو بتایا تو والد صاحب نے فرمایا " بھٹو صاحب نے پھانسی سے پہلے کہا تھا کے کاش میں کراچی والوں کے ساتھ دیتا تو وہ مجھے پھانسی کے پھندے سے بچا لیتے"

   
خیر بات ہو رہی تھی ایم کیو ایم دھرنوں کی، میری نظر میں ان کو دھرنا کہنا غلط ہو گا. یہ  دھرنے نہیں بلکہ  صبر، نظم و ضبط ، عقیدت، احترم اور اتحاد کے میلے تھے. جہاں دودھ پیتے بچوں سے لے کر  90 سال کے بزرگ شریک تھے. خواتین بلا خوف خطر اپنے الطاف بھائی کے لے دعا اور یا سلامُ  کا ورد کر رہی تھیں. نہ کسی کو بھوک کی فکر تھی نہ ہی دھوپ کی، نہ دن کی نہ رات کی. چھوٹی چھوٹی بچیاں ہاتھ جوڑ کر الطاف حسین کی امان کی دعائیں مانگ رہیں تھیں. مائیں اپنا آنچل پھیلا پھیلا  کر اپنے بیٹے کے لیے دعا کر رہیں تھیں,  بھائیوں کے غصے کی شدت، سورج کی شدت کو ماند کر رہی تھی.  گو ہر شخص کھلے آسمان تلے سڑک پر صبر  سے بیٹھا تھا  



ایم کیو ایم کے کارکن اور لیڈرز کے ساتھ ساتھ  سول سوسائٹی ، کاروباری برادری، مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماوں بھی دن اور رات ان دھرنوں میں عوام کے ساتھ شریک تھے. ان دھرنوں میں ایک بڑی تعداد  ان کم عمر نوجوان اور بچوں کی تھی جو کبھی بھی الطاف حسن سے اپنی زندگی میں نہیں ملے. الطاف حسین کی 34 سال کی تربیت کا کمال تھا کہ پانچ دن میں عوام اور کارکنان کا صبر اور نہ ہی کسی درخت کا ایک پتہ بھی ٹوٹا .

سازشیں اور مشکلات ایم کیو ایم کارکنوں اور الطاف حسین کے چاہنے والوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں. پچھلے  کئی  سالوں سے روزانہ بلا ناغہ شام آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک پنجاب سے ٹی وی پر  بیٹھ کر، لال پیلی ٹائی پہن کر، نام نہاد اینکرز -  ایم کیو ایم، الطاف حسین اور مہاجروں کے خلاف اپنے من کا میل نکالتے ہیں، کبھی الطاف حسین کے چیپٹر ختم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے، کبھی گروپنگ کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے  تو کبھی مہاجروں کو بھوکا ننگا بولا جاتا ہے تو کبھی قرآن پاک کو سر پر رکھ کر جھوٹ کو سچ کروانے کی  کوشش کی جاتی ہے. مگر ہر بار عوام نے اپنی محبت اور ہمت  سے ہر سازش اور مشکل کو اس کے منطقی انجام تک پہونچایا .

طوفان کر رہا ہے میرے عزائم کا طواف
 دنیا سمجھ  رہی ہے کہ کشتی بھور میں ہے

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کے کہ ایک بار پھر الطاف حسین کے ماننے  والوں نے 6 اور 7 جون کی درمیانی شب  اپنے صبر، حوصلے، اور  نظم و ضبط  سے جیل توڑ کر اپنے محبوب قائد کو جھوٹے  مقدمات سے بری کروایا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ پہلی بار ایم کیو ایم کے مضبوط ہاتوں نے کراچی جیل کی اور اس بار ایم کیو ایم کے مصبوط ارادوں نے برطانوی جیل دیواریں گرا دیں 

یہاں یہ بات قبل غور ہے کہ الطاف حسین پولیس اسٹیشن سے رہائی کے بعد جب باہر آئے تو ان کو برطانوی حکومت نے سرکاری  پولیس پروٹوکول دیا. پولیس کی گاڑیاں نے الطاف حسین کی کار کو اپنی سیکورٹی میں ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پہونچایا . پولیس نے سرکاری طور پر اعلان بھی کیا کہ الطاف حسین پر کوئی مقدمہ نہیں ہے. یہاں مجھے الطاف حسین کے یہ الفاظ یاد آگے " میں نے کبھی اپنی قوم کا سر نہیں جھکنے دیا اور نا کبھی جھکنے دوں گا "

میں ایک بات بار بار سوچتا ہوں، جو لوگ الطاف حسین کی  محبت میں صبر اور  نظم و ضبط  سے دھرنوں میں بیٹھے تھے اگر یہی لوگ الطاف حسین کی محبت میں اٹھ کھڑے ہوتے تو ؟

تم گرانے میں  لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

                میں گرا تو, مسلہ بن کر کھڑا ہو جاؤنگا   

Also Published:
          


    

  • Twitter ID: @fawadrehman

Wednesday, May 7, 2014

عمران خان کا بڑھاپے میں بچپنا

 جہاں الله تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں لا محدود نعمتوں سے نوازا ہے وہیں انسان کوغیر معمولی بیماریوں کا عطیه بھی  دیا  ہے.ان بیماریوں میں سے ایک بینجامن بٹن (Benjamin Button)  کہلاتی ہے. اس بیماری میں انسان جسمانی طور پر بچہ پیدا ہوتا ہے مگر ذہنی تو پر کسی دانش مند آدمی کا ذہن  رکھتا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ جسم تو  بڑھتا ہے مگر عقل گھٹنا   شروع ہو جاتی ہے یعنی بڑھاپے میں انسان  کمسن بچے کے مانند حرکتیں کرتا ہے (Reverse Aging) . ضد، رونا ، چیخنا,  سست روی اور بچکانہ حرکتیں معمول بن جاتی ہیں  .


نجانے کیوں مجھے تو تحریک انصاف کے سربراہ  عمران خان بھی اسی ہی کسی بیماری کا شکار لگتے ہیں 

میرا تجزیہ کسی پسند یا ناپسند پر نہیں بلکہ  خان صاحب  کی حرکات اور سکنات پر مبنی ہے. دیکھیں نا، جس عمر میں نوجوان  اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا  ہے اس عمر میں خان صاحب اک بچی کے باپ بن گئے تھے، جس عمر میں نوجوان نوکری کے لیے دربدر بھٹکتا ہے  اس عمر میں خان صاحب  نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوا دیا تھا اور جس عمر میں مسلمان حج اور عمرے کا سوچتا ہے اس عمر میں خان صاحب   رنگرلیاں  مناتے ہیں

اب جبکہ خان صاحب ریٹائرمنٹ کی عمر کو  پہنچ  رہے  ہیں مگر ضد کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک اپنے آپ کو نوجوان اور نوجوانوں کا لیڈر مانتے ہیں، ١١ مئی کو الیکشن ہار گئے مگر  ضد پر اڑے ہیں میں ہی جیتا تھا، ایک سال  بعد دھاندھلی  کا خیال آتےہی جلسے اور جلوس کا اعلان کردیا اور کہنے لگے " کرلو جو کرنا ہے میں ہی جیتا تھا ". ( بینجامن بٹن  میں ضد بہت بڑھ جاتی ہے)

جب انسان کا جسم  بڑھ جاتا ہے اورذہن  جھوٹا ہوجاتا ہے تو انسان خود بخود سست ہوجاتا ہے، خان صاحب کے لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کے وہ ہر بات کو بہت دیر میں سمجھتے ہیں یعنی عوامی ایکسپریس کی آخری بوگی میں بیٹھ کر آتے ہیں.  مشرّف کا ساتھ دیا، سابق چیف جسٹس کا ساتھ دیا، طاہر القادری کا ساتھ نہیں دیا, خیبر پختونخواہ میں حکومت بنا لی، آج جاکر احساس ہوا  کے غلطی ہو گئی. ( بینجامن بٹن  میں سست روی بہت بڑھ جاتی ہے)


آج کل سپریم کورٹ سے انصاف نہ ملنے پر رو رہے ہیں میں تو یہ  بھی کہوں گا ناصرف رو رہے ہیں بلکہ  چیخ  بھی رہے ہیں. گو کہ  دھاندلی کے تمام ثبوتوں کے ہونے کا دعوی کرتے ہیں پر دیتے نہیں ہیں. 
فرماتے ہیں کے 35 پنچر کا  ٹیپ بھی موجود ہے پر یہ نہیں بتا رہے ٹیپ لگنے والا ہے یا بجانے والا ؟ . آج بھی قومی وطن پارٹی کے منسٹرز اپنے اپر لگے کرپشن کے الزامات کے ثبوت مانگ رہے ہیں پر خان صاحب ثبوت نہیں دیتے اور ناہی کورٹ میں جمع کراتے ہیں. کبھی 'صحت کا انصاف' مہم کی تعریف چیخ چیخ کر کرتے ہیں اور پھر اپنے ہی صحت کے وزیر کو خراب کارکردگی پر نکال دیتے ہیں .... ثبوت مانگ کر شرمندہ نہ کریں. ( بینجامن بٹن  میں  رونا ، چیخنا  اور ضد  بہت بڑھ جاتی ہے)

بچکانہ حرکتوں میں تو خان صاحب ماسٹر ہیں. امریکی ڈالر کے علاوہ ہر چیز پربچوں کی طرح لڑتے ہیں مثال کے طور پر, کبھی نیٹو سپلائی بلاک کر دیتے ہیں تو کبھی اپنے پسندیدہ جیو ٹی وی کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں تو کبھی عدلیہ کو اپنی ہار کا ذمہ دار, تو کبھی جیو ٹی وی کوالیکشن میں دھاندلی کا  ذمہ دار. مطلب یہ کے ہر روز موڈ  سوئنگس (Mood swings) ہوتے ہیں اور جو لپیٹ میں آجائے اس کی واٹ لگادیتے ہیں. روزانہ شام 7 بجے کے بعد رنگین محفلیں سجتی ہیں اور خان صاحب کسی نوجوان کی طرح ان محفلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں. ( بینجامن بٹن  میں بچکانہ حرکتیں معمول بن جاتی ہیں )


تحریک انصاف کے دستوں سے گزارش ہے کہ عمران خان سے کھیلنے  کے بجائے ان کا کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائیں. میں مانتا ہوں خان صاحب ایک  تفریح  کا سامان ہیں جن سے بچے اور بڑے سب لطف  اندوز ہوتے ہیں مگر خان صاحب ہمارے نیشنل ہیرو 
بھی ہیں اور ہم سب کو ان سے بہت  پیار ہے. ٹی وی چینلز سے بھی گزارش ہے کے خان صاحب کو 
پروگراموں میں  بلانے کے بجائے کوئی کامیڈی پروگرام دکھا  دیا کریں.  کسی مریض کی بیماری کو سرے عام اچھالنا اخلاقی آداب  کے منافی ہے. طبی تحقیق کاروں سے گزارش ہے کے عمرانی U-Turns کو بھی بینجامن بٹن کی  نشانیاں اور علامات (Signs and symptoms) میں شامل کرلیں  شکریہ


نوٹ: کراچی کی زبان میں بینجامن بٹن بولے تو؟ سیدھا کرو تو گڈا، الٹا کرو تو بڈھا.


Twitter ID: @fawadrehman

Wednesday, January 29, 2014

Who is Major (Retired) Mohammad Aamir?


Wednesday Jan-29-2014, Pakistani Prime Minister Nawaz Sharif told parliament that he would give Taliban militants “one last chance” to halt their spree of killings and bombings and join peace talks. Adding to his comments, he has constituted a 4-member committee to facilitate the peace talks with Talibans. Committee includes Irfan Siddiqui (Journalist) , Rahimullah Yousafzai  (Journalist) and Rustam Shah Mohammed (Former Ambassador to Afghanistan) and “Famous” retired ISI Major Mohammad Aamir.

We all have an extensive knowledge about Irfan Siddiqui, Rahimullah Yousafzai and Rustam Shah Mohammed but who is Major (retired) Mohammad Aamir ?


Major retired Aamir belongs to a religious family from Panjpir, a town in Sawabi district in Khyber Pakhtunkhwa province. His father Maulana Muhammad Tahir, a cleric who belonged to the Panjpiri “Sect of Wahabism” and founder of “Jamaat-e-Ishaat-e-Tauheed Wa Sunnah”(JITS). Main objective of the organization is to preach Islamic faith in the Oneness of Allah and tradition of the Holy Prophet (PBUH), as a code of life and also to alienate them from polytheism (Shirk), fabrication in Islam (Bida) and un-Islamic rites and rituals, from the Holy Quran, according to their website (http://www.panjpir.org/).

After the death of Maulana Muhammad Tahir, his son Maulana Tayyab (Brother of Major Aamir) became the chief of  JITS organization who also manages a huge religious seminary (Madarsa) in the town of Panjpir.


This madrassa was an important recruitment camp that also performed the role of a think tank for strategic planning during the Afghan war of the 1980s.


Tehrik-Taliban-Pakistan chief Maulana Fazlullah and Sufi Muhammad, chief of the Movement for the Enforcement of Shariah in Malakand (TNSM) are also loyal followers of the Panjpiri organization. Maulana Fazlullah and Sufi Muhammad received their religious education from Maulana Muhammad Tahir (father of Major Aamir).


(left to Right) Major Amir, Maulana Tayyab (Brother of Major Aamir) and Imran Khan 
at Jamaat-e-Ishaat-e-Tauheed Wa Sunnah”(JITS) headquarter. 

Major Aamir was not only famous for his religious affiliation but also his profession services in ISI (Pakistan Inter-Services Intelligence). Operation Midnight Jackal was a cold war military intelligence program operated by the ISI to topple the first government of Prime Minister Benazir Bhutto in 1989 through a no confidence vote in parliament. Two key players of Operation Midnight Jackal, Brigadier Imtiaz Ahmed alias Billa and ISI Major Mohammad Aamir were caught on video and audiotapes influencing some PPP parliamentarians. Funds for buying votes were allegedly provided by Osama Bin Laden. Both were arrested by the Pakistani military police and the espionage case against was filed in the special military courts.


According to the court documents Major Aamir testified that “Nawaz Sharif was more acceptable to the Pakistan Army than Benazir Bhutto."


The former ISI operative Major Amir was awarded by Nawaz Sharif during his second term as a Prime Minister. Major Amir used to be a special adviser to former NWFP chief minister Sardar Mehtab Abbasi, a close aide of former Prime Minister Nawaz Sharif during (1997–99)



In 2009, A luxurious 600 square yards plot in Sector I-8 of Islamabad given to Major Aamir by then PPP Zardari government from the quota reserved for “People facing extreme Hardship”.. According to Major Aamir “he got this plot, as it was his right as he had served in the FIA in the 90s.

On February 24, 2012, FIR was lodged at the Paharipura Police Station against Major Aamir, his son and his gunmen for opening fire at a tuck shop in Neelab CNG station resulting in the killing of Khan Muhammad and injuring Sangeen and Imran. Arrest orders were issued by Sessions court but later on set aside by a division bench of Peshawar High Court (PHC).


Once again Nawaz Sharif is Prime minister, Major Amir his trusted aid in peace talks and Mullah Fazalluah is a chief of Opposition (Taliban). All the top guns know each other and have had good relationships in the past. Not sure what will be the outcome of these peace talks/negotiations be but one thing is certain that People of Pakistan will not accept any peace deal like the one had in Swat or self-created Shariah.





Also Published at:
ARY News Blogs
http://blogs.arynews.tv/who-is-major-retired-mohammad-aamir/

Twitter ID: @fawadrehman

Wednesday, January 22, 2014

The Mass Media: The Terrorists' Battlefield


Terrorist groups have lately realized that violence alone is not  the best recourse to gaining an overall victory for their cause. Sophisticated terrorists organizations like TTP (Tehreek-e-Taliban Pakistan) and  Al-Qaeda, realize that in addition to violence, propaganda is needed for the successful orchestration of their activities. Whether it is television, radio or the internet, terrorist organizations understand that these instruments are valuable in instilling fear, panic and devastating psychological effects on a governments and citizens.

Recently, three workers associated with ExpressNews television were killed when unidentified attackers of Tehreek - e- Taliban Pakistan opened fire on a DSNG (digital satellite news gathering) van in Karachi’s Nazimabad area.

“We (TTP) accept responsibility. I would like to present some of its reasons: At present, Pakistani media is playing the role of (enemies and spread) venomous propaganda against Tehreek-e-Taliban. They have assumed the (role of) opposition. We had intimated the media earlier and warn it once again that (they must) side with us in this venomous propaganda,” TTP spokesman Ehsanullah Ehsan told Express News.

Terrorist attacks are useless if no one knows about them. As the old saying goes: "a picture is worth a thousand words".  Images, especially video images, of bombed buildings, bloody corpses and frightened hostages are much more memorable than print or audio reports of the same incidents. Committing and claiming responsibility for a terrorist attack is one of the most effective ways to obtain free global publicity for one's cause.

Other than the internet and printed material, terrorist have sought out other means in broadcasting their ideologies. All terrorist organizations need a large audience, and they have learned to exploit the media's own procedure to maximize their reach. In executing violent acts, terrorist organizations hope to draw attention through news media which broadcasts their violent activities across the country and as well as across the globe.

Media also gives a twisted version of a celebrity status to these individuals. Broadcasting their names and pictures across the screen and giving them credit for these heinous acts serves only to inflate warped egos. If the media stops giving credit and attention to the perpetrators and instead focuses on the heinous nature of the attack and the plight of the families of the dead and injured, it might take away from the terrorists inherent need for publicity.

The aim of the terrorist organizations is to be treated like regular, accepted, legitimate world leaders. According to the TTP spokesman Ehsanullah Ehsan “the media must mend its behavior and do balanced reporting, which is impartial, which is transparent and not tainted with propaganda”

The media may directly or indirectly serve the interests of terrorists by simplifying stories for the viewer to the point that it has little to do with the actual events. Repeating the traumatizing scenes and stories may also serve terrorists, as the goal of the terrorists is to be in the media as often and long as possible.

The one thing that is indisputable is that Pakistani media feeds on the violence of terrorism acts; whoever can tell the most violent story wins the audience. This is not really about freedom of speech, but rather a morbid desire to acquire the biggest audience and consequently harvest the capitol benefits.

In a nation where the government maintains tight control of the media like China or North Korea, terrorist tactics are nearly useless.

Following recommendations can be implemented to minimize the media-related effects of terrorism:

       News coverage with less repetition of horrific scenes, less traumatization, less sensation and more information are essential in the first place
        The media should present story to the audience fairly and accurately without bias, so that the audience can make their own opinion of the news and/or story.
       To avoid panic in audience, Media should use plain language that everybody can understand.
       Since no terrorist group is alike, the media should differentiate between different types of terrorism and terrorist groups
       Government-media partnership should be formed for better and accurate background of any terrorism-related act.



Terrorist attacks are designed to create an atmosphere of fear or a sense of threat. In any case, the terrorists’ need for media publicity and media’s need for a greater audience and profits.


Also Published in
PASHTUN WOMEN VIEWPOINT
http://pashtunwomenvp.com/index.php/2013-01-28-03-21-27/social/398-the-mass-media-the-terrorists-battlefield

The Daily Times
http://www.dailytimes.com.pk/opinion/23-Jan-2014/terrorism-and-the-media-s-role

Pakistan Press Foundation
http://www.pakistanpressfoundation.org/views-and-opinions/74936/terrorism-and-the-medias-role/

ARY NEWS
http://blogs.arynews.tv/terrorism-and-media-role/

Twitter ID: @fawadrehman

Monday, December 30, 2013

ڈرون نہیں تو دیوار سہی.



پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری  طالبان کے خلاف اعلان جہاد بلند کرکے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت اور طالبان دوست تحریک انصاف کے دھرنوں کے نشانے پر آگے. عمران خان جو اپنی سیاست کے بجائے اپنے دھرنیوں کی وجہ سے  زیادہ مشہور ہیں،عجلت میں اکر25 سالہ بلاول کے خلاف اعلان دیوار کر دیا. گو کے وقت کم اور مقابلہ سخت تھا اسی وجہ سے عمران خان نے اپنے دو کارکن جو کے دانت گرانے میں مہارت رکھتے ہیں بلاول ہاؤس کی  دیوار گرانے کا کام سونپ دیا   


حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے عمران طالبان محبت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے الله بری نظر سے بچاے وہ اب روکنے کا نام ہی نہیں لیتا. چند دنوں قبل  دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک (جو کہ طالبان تحریک کا مرکز اور کعبہ مانا جاتا ہے ) نے پولیو کے قطروں کو بلاخر  فتویٰ کے ذریے اسلامی قرار دیدیا، اس سے پہلے صرف  پولیو ورکرز کی ٹارگٹ کلنگ حقانی طور پر  جائز تھی. فتویٰ انے کی دیر تھی عمران خان کسی جن کی مانند اچھالتے کودتے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پہنچ گئے،  بچوں  کا مطالبہ کیا، علاقے کی ماؤں نے عمران خان اور مولویوں  کا نام سنکر صاف انکار کردیا. بلاخر مولانا سمیع الحق  نے اپنے پوتے کو اپنی ضمانت پر اور موجودگی میں عمران کے ہاتھوں پولیو کے قطرے پلانے کا ڈرامہ کرنا پڑا.


تحریک انصاف کے لیڈر جناب ڈاکٹر عارف علوی نے محمود غَزنوی کے مانند بلاول ہاؤس کی دیوار پر پہلے حملے  کے لے  29 دسمبر کی تاریخ چنی  اور اعلان کردیا جب تک دیوار نہیں گرتی حملے ..وہ میرا مطلب ہے دھرنے جاری رہیں گئے چننے سے یاد آیا، ہوسکتا ہے دیوار میں "انار کالی " کی موجودگی کی خبر ہو؟ اور یہ بھی ہوسکتا ہے طالبان کے دفتر کے لیے اینٹوں کی ضرورت ہو؟ یا دیوار پر لکھا نعرہ " جو طالبان کا یار ہے غدار ہے " ہر صبح منہ چڑاتا ہو ... کہنے والے تو یہ  بھی کہتے ہیں کہ دیوار پر سے ڈرون اور مہنگائی گرانے کا پروگرام ہے... خیر وجہ کوئی بھی ہو ڈاکٹر محمود غَزنوی، "جیالوں کے مندر" پر حملے کے لیے تیار تھے

.
الیکشن کمیشن پاکستان نے منتخب نمائندوں کے اثاثوں کی ایک فہرست جاری کی جس کے مطابق عمران خان کو بنی گلہ کا 300 کنال کا محل گفٹ میں عنایت ہوا ہے، ہم نے سوچا چلو خان صاحب کو مبارک دیدیں اور ساتھ ساتھ  عبدالقادر ملا کی پھانسی کی تعزیت بھی کر لیں کیونکے خان صاحب  کافی رنج و غم کا شکار تھے، ایک تو جماعتی دوست کو پھانسی اور اپر سے عمران خان کے پتلے کو ڈھاکہ کی سڑکوں پر شرمناک حالت میں جلایا گیا

فون کیا تو معلوم ہوا کے خان صاحب سات بجے شام کے بعد کوئی مردانہ فون کال نہیں لیتے. ہم نےگذارش کی تو دوسری طرف سے آواز آی " خان صاحب فٹ بال دیکھ رہے ہیں "

 ہم نے پوچھا کون کھل رہا ہے؟

 آواز آی "طالبان

 کیا طالبان بھی فٹ بال کھلتے ہیں ؟ ہم نے بہت حیرانگی سے پوچھا

پھر آواز آی " ہاں بہت شوق سے پر صرف پاکستانی فوجیوں کے کاٹتے ہوے سروں سے " اور ساتھ ہی دوسری طرف سے فون بند کردیا گیا .


29 دسمبر، وہ دن اور گھڑی جس کا سب کو انتظار تھا، 3 بجے بوٹ بیسن پر پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اور تحریک انصاف کے پیارے  پیارے (بمسکل 50 کارکن) آمنے سامنے آگیے، خدا کی پنہا، پی پی پی والوں نے وہ " ایٹم نمبر" دیے ہیں پی ٹی آئی کے  کارکنوں کو کہ " شیلا کی جوانی، مننی بدنام ہوئی یا  چممک چللو" کو بھی مات دے دی. جتنا ایکشنDhoom 3 میں نہیں تھا اتنا بوٹ بیسن پر دیھکنے کو ملا.   ڈاکٹر عارف علوی تمام ایکشن سے کہیں  دور ٹھنڈے مشروبات کا اور کارکن ایکشن میں گرم ڈنڈوں کا مزہ اڑاتے رہے. ایک دوست عمیر سے ٹویٹر پر دریافت کیا " کیا دیوار گر گئی ؟" جواب آیا "دیوار نہیں گری پر پولیس تحریک انصاف کے کارکنوں کا ملبہ اٹھا رہی ہے " .بلاخر تمام ڈرامہ تھانے اور ہسپتال پر ختم ہواپورے ڈرامے کا سب سے زیادہ فائدھ دکانداروں کو ہوا جنھوں نے Iodex مہنگے داموں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو فروخت کیں. 



عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جماعت اسلامی کی سرپرستی میں طالبانا تربیت دینے کیلے، خیبر پختونخواہ حکومت کی نقیض کارکردگی چھپانے کے لیے، اور ڈرون ڈرامے کے لے، اس قسم کے معرکے منظم کرنے پڑیں گئے. پشاور میں  نیٹو کی سپلائی پر حملے، لاہور میںsection 144 کی   نافرمانی اور کراچی کے پرامن مانے جانے علاقے میں کھلی ڈنڈا بردار غنڈہ گردی، یہ سب طالبانا سوچ کو پروان چھڑانے کی کوشش ہے. اگر عمران خان کی  طرح بلاول بھتو کو بھی 300 کنال کا محل گفت میں ملتا تو شاہد آج بلاول ہاؤس کے سامنے دیوار نہ ہوتی


چلتے چلتے، خان صاحب کا ایک بیان نظروں کے سامنے سے گزرا جس میں اپنے اپ کو ٹیپو سلطان بنے کی خواہش ظاہر کی ، وجہ کا ہم سب کو اندازہ ہے ٹیپو سلطان نے ایک وقت میں دو عورتوں سے شادی کی تھی ایک ماں اور دوسری والد کی خواہش سے .... خان صاحب سے صرف اتنی  گزارش ہے "خان  صاحب  جان  دیو  صدی  واری  ان  دیو "  

Twitter ID: @fawadrehman

Wednesday, December 4, 2013

!!! جماعت اسلامی بانٹیں شہادت وہ بھی اپنے اپنوں کو

ابھی حکیم اللہ محسود کی شہادت کے غم سے نکل نہ پایا تھا کہ جماعت اسلامی کے رہنما جناب فرید پراچہ صاحب نے قوم پر ایک اور ڈرون حملہ کردیا . ہاں میں اسامہ بن لادن کو شہید مانتا ہوں !!!  پراچہ صاحب ایک سانس میں بول گئے اور پوری قوم سانس لینا بھول گئی .



فرید پراچہ صاحب کے  الفاظ  سنتے ہی  میں تخت نشین سے فرش نشین ہوگیا، کچھ دیر میں حواس پر قابو پایا اور سوچ میں ڈوب گیا، حکیم اللہ محسود، کتا اور اب اسامہ بھی  شہید،؟ اگر کوئی شہید نہیں تو وہ ہمارے فوجی جوان جو اپنی جان کی بازی لگا کر پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کر رہے ہیں. مانا جماعت اور القائدہ دو جسم ایک جان ہیں اور ایک دوسرے  کے لیے  " Eye to Eye " گانا بھی گاتے ہیں پر جناب کچھ تو مولانا مودودی صاحب کے  نا-پاکستان کا خیال کرلیتے.


حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں جماعتیں ہی ذہنی اور جسمانی بیچینی کا شکار ہیں، دونوں جماتوں کے رہنما اور ورکرز الٹے سیدھے بیانات اور احمقانہ حرکات پر اتر آئے ہیں ، کبھی ISPR کی شکایات کسی دیہاتی عورت کی طرح وزیر اعظم سے کی جاتی ہے تو کبھی نیٹو کی سپلائی روک دی جاتی ہے، تو کبھی معلوم ڈرون کو نامعلوم ڈرون درج کردیا جاتا ہے.   

امریکا بہادر نے بھی ٹھان لی ہے " زمیں جنبد نہ جنبد گل محمّد ، ڈرون حملے  نہیں روکیں گئے". ایک تازہ ترین ڈرون حملے میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کا ایک رکن عبدالرحمٰن شجاعت مارا گیا .عبدالرحمٰن NED University Karachi   سے  انجینرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، دہشتگردی میں اعلی تعلیم کیلیے کئی سالوں سے  وزیرستان میں مقیم تھے  اور پنجابی طالبان تنظیم کے ایک اہم رکن  کی حثیت سے جانے اور پہچانے جاتے تھے .  



عبدالرحمٰن کی موت کا سب سے زیادہ ردعمل پنجاب یونیورسٹی میں دیکھا گیا جہاں اسلامی جمیعت طلبہ نے ہوسٹل کی منتقلی کا بہانہ بنا کر نہ  صرف ٹیچرز پر تشدد کیا بلکہ یونیورسٹی کی بسوں اور سرکاری املاک کو جلایا اور نقصان بھی  پھنچایا.  جواباً پولیس نے کارروائی کی اور جمیعت کے کئی ارکان کو حوالات کی سیر کا شرف بھی  حاصل کرایا.  پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل پر چھاپے کے دوران جمیعت کے ناظم راؤ عدنان  کے کمرے سے پہلی بار القائدہ کے ارکان  کے بجائے غالب کی شاعری کا سامان یعنی شراب کی بوتلیں ، جنت کے انگور یعنی گولیاں، اور ساتوں آسمان کی سیر کرانے والی بھنگ  برآمد ہوئیں.  شاہد جہاد پاکستان یا غزوه ہند کی تیاری ہو رہی تھی. ایک جماعتی دوست سے واقع دریافت کیا تو انھوں نے یہ کہہ کر لاجواب کردیا " نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل "


 پولیس کارروائی کے جواب میں فرید پراچہ صاحب  نے ٹی وی انٹرویو میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو "Play Boy " کا لقب عطا فرمایا، ( اپنا لقب چھن جانے پر عمران خان بہت جلد دھرنے کا اعلان کریں گے ). قارئین کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو پر یہ وہی پنجاب یونیورسٹی ہے جہاں چند سال قبل جمیعت  کے جہادی ارکان نے عمران خان کو اغوا کرکے شرمناک حرکت کی تھیں.



جماعت اسلامی کی طالبان سے محبت کی ایک وجہ مولانا فضل اللہ عرف ملا ریڈیو کی تحریک طالبان پاکستان کی قیادت سمبھالنا ہے. جماعت کے امیرمنور حسن  نے صوفی محمّد صاحب کو جو کہ ملا ریڈیو کے قریبی ساتھی  اور روحانی پیشوا بھی ہیں  " تھوڑا کافر" کہہ کر مخاطب کیا تھا اور مرحوم قاضی حسین احمد نے طالبان کو امریکی تخلیق کہہ کر مخاطب کیا تھا. اب گردن کاٹنے اور بم پھٹنے کا خوف بھی تو کچھ ہوتا ہے نا،


جس طرح جماعت اسلامی شہادتیں بانٹ رہی ہے اس کے مطابق تو امریکی اداکار پال والکر " Paul Walker" بھی شہید ہیں کیونکہ ان کی کار بھی اک "امریکی بجلی کے کمبھے" سے ٹکرائی تھی.


بہت   ہو  چکی  بیوفائی  اب  تو  وفا  کیجئے
قبر میں ہیں پاؤں آپکے, کچھ تو حیا  کیجئے    

Twitter id : @fawadrehman    

Tuesday, November 12, 2013

My Murder, My True love


Forbes Magazine published an article, a few months back, which ranked Pakistan 11th on the list of the most unhappy nations in the world. At first glance, there seems to be no obvious reasons for such declarations but, upon further reflection on the present environment and the political rhetoric, my thought blossomed like an unfurling parachute.
The untimely death of Hakeemullah Mehsud has sent the Pakistani nation and, especially, the right-wing political leadership spiraling into depression, They wonder when  Sharia can become the law of the land? When will the nation witness the birth of another Hakeemullah Mehsud who will shatter all records by claiming 50,000 kills (we all know that records are not made in a day!)?
A leader who was the link between the Afghan Taliban, the Punjabi Taliban and Al-Qaida. He mastered the precision of slitting Pakistani soldiers’ throats. He righteously declared Quaid-i-Azam to be a Kafir-e-Azam and generously handed out fatwas of kufr free of charge. He proudly accepted all responsibility for explosive acts of terrorism. I ask you, how can a nation be joyful when a hero of this stature leaves us? This tragedy is compounded when it follows another great loss...yes I am talking about the Honorable Sheikh Osama bin Laden. What nation would not lose its ability to smile in the face of such devastating tragedies?
The demise of Hakeemullah Mehsud has also plunged the government of Pakistan into an abysmal sadness. Chaudhry Nisar, the interior minister, was unable to control his emotions and droned ...I mean... addressed a very sentimental press conference. Meanwhile, prime Minister, Nawaz Sharif also arrived home after his foreign trip.


This breaking news felt like a drone attack to Imran Khan, who was already distraught over Malala Yousafzai’s Nobel Award nomination. With a show of strength he was able to rein in his despair and after declaring solidarity with the fallen leader announced that the NATO supply routes should be shut down in protest. After more time had passed and Imran’s anger was yet unabated, he broke tradition and attended the national assembly session for an unprecedented third time. He delivered a moving eulogy to the dear departed and left everyone wondering why we did not witness such a display of emotion at the time of Major General Sanaullah Khan’s shahadat?


Jama’at Islami was not far behind. Munnawar Hussan immediately bestowed the honor of Shaheed upon the deceased and prayed for his elevation into Jannah. May be Mr. Munnawar Hussain forgot that Hakeemullah Mehsud, himself, had facilitated the last meeting between Allah Ta’ala and Colonel Imam.


Confusion ensued when we read and heard about the distress of law enforcement agencies. Why were these esteemed persons upset? Maybe they were upset over the fact that they had been unable to collect the considerable bounty. After all, the deceased had sacrificed the lives of many Pakistani soldiers to actualize this prestige.


Even the media was complicit in depriving the nation of any semblance of joy. The news of the tragic death was broadcast right when Pakistan was about to win the second one day match against South Africa...even though the drone attack had happened the day before and our hero had already departed for his much anticipated meeting with seventy-two hoors. I wish that the media had waited and given the nation a chance at experiencing some pleasure.


If Forbes Magazine had conducted its survey on the day of Mumtaz Quadri’s (Governor Salman Taseer’s bodyguard and, respectfully, his murderer) first appearance in the court, maybe Pakistan would have led the world in the list of the happiest nations.

Twitter ID : @fawadrehman
Also published at Saach.tv  http://www.saach.tv/2013/11/20/my-murder-my-true-love/
Urdu Translation: http://defenderofhope.blogspot.com/2013/11/mehsud.html

Monday, November 4, 2013

میرا قاتل میرا محبوب


چند دن پہلے فوربز میگزین (Forbes Magazine) کا اک آرٹیکل نظر سے گزرا جس کے مطابق پاکستان دنیا کی ناخوش ترین ریاستوں میں 108 ویں نمبرپر تھا. بظاھر اس مقالے کی  کوئی وجہ ذھن میں نہ آئ  پر تھوڑی غوروفکر، موجودہ حالات اور سیاسی بیانات نے گویا ذھن کو پیراشوٹ کی مانند کھول دیا



 حکیم‌ الله محسود کی ہلاکت نے پاکستانی قوم اور بالخصوص دائیں بازو کی جماتوں کے لیڈروں کو مایوسی اور غم کے اندھیروں میں  دھکیل  دیا ھے. نہ جانے اب کب شریعت نافذ ہو گی؟ نہ جانے کب قوم میں دوسرا  حکیم‌ الله محسود پیدا ہو گا جو50,000 سے زائد جانوں کے قتل کا ریکارڈ توڑے گا (ریکارڈ اک دن میں نہیں بنا کرتے ) ؟ ایسا لیڈر جو افغان طالبان ، پنجابی طالبان اور القائدہ کی جنگوں کے درمیان اک مضبوط زنجیر کا کردار ادا کررہا تھا ، پاکستانی فوجیوں کی گردنیں کاٹنا اور وہ بھی اس مہارت سے کہ اک انچ بھی اوپر نیچے نہیں۔ ماشاللہ کتنی معصومیت سے قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر کہتا تھا، کفر کے فتوے تو  مفت میں بانٹتا تھا، دہشتگردی اور دھماکوں کی ذمداری بڑے فخر سے قبول کرتا تھا .... اب بھلا  آپ ہی بتائیں اگر ایسا قومی ہیرو مارا جاےُ توکون مسلمان سکھ کا سانس لیگا؟  اور جس قوم کا ایک اور ہیرو چند سال قبل مارا گیا ھو ، جی ہاں میں جناب شیخ اسامہ بن لادن کی بات کر رہا ہوں ....  ایسے اندوہ ناک غموں کے پہاڑ ٹوٹنے پر قوم مسکرانا نہیں بھولے گی تو کیا کرے گی؟     


حکیم‌ الله محسود کی ہلاکت نے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کو بھی شدید رنج و الم  میں مبتلا کردیا ھے. وزیر داخلہ  چودھری نثار علی خان تو فرط غم سےجذبات پر قابو ھی نہ رکھ  سکے ، آنکھیں لال، خون سفید اور غم سے نڈھال لہجے کے ساتھ ایک نہایت جذباتی قسم کی پریس کانفرنس بھی ٹھوک ڈالی، مرحوم کی شان میں زمین اور ڈرون ایک کردیا. اور اسی اثنا میں وزیر اعظم نواز شریف چند دن کے سرکاری دورے  پر  لندن  سے  پاکستان پہونچ گئے



عمران خان جوکے پہلے ہی ملاله یوسفزئ کے نوبل ایوارڈ  کی نامزدگی پر شدید ناراض اور صدمے کا شکار تھے، ان پر تو یہ  بریکنگ نیوز گرم گرم ڈرون میزائل کی طرح برسی . کچھ سوچ کرجذبات پر قابو پایا اور مرحوم سے اظہار یکجہتی کے لئے نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان داغ دیا.  کچھ وقت گزرنے  کے بعد بھی جب  غصہ میں کمی نہ  آئ تو برخلاف روایت تیسری مرتبہ  قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے اور ایک ذھین و فطین اور جذبات سے بھرپور تقریر کر کے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا. نہ جانے کیا وجہ رہی ہو گی جو خان صاحب ، میجر جنرل ثنااللہ کی شہادت پر اس طرح کا جذباتی رد عمل نہ دکھا پائے

جماعت اسلامی کہاں پیچھے رہنے والی تھی ، بوم بوم منور حسن نے تو مرحوم کو شہید کا درجہ دینے میں ذرا بھی توقف نہ کیا اور الله سے دعا فرمائی کے مرحوم کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے. منور حسن صاحب شائد بھول گئے تھے کے کرنل امام اور الله تعالیٰ کی آخری میٹنگ بھی مرحوم نے خود اپنے ہاتھوں سے سیٹ کی تھی.  
    
کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناراضگی بھی پڑھی اور سنی جاسکتی ہے ... سمجھ نہ آیا، آخر صاحب بہادر کیوں ناراض ہیں ؟ مرحوم نے نہ جانے کتنے پاکستانی فوجیوں کی قربانی دیکر، حکومت پاکستان سے ٥ کروڑ روپے اور امریکی حکومت سے ٥ لاکھ ڈالر کا انعام اپنے سر کی قیمت لگوا کر یہ مقام حاصل کیا تھا. ہوسکتا ھے انعام کی رقم نہ ملنے کا غم درحقیقت فوج کی ناراضگی کا سبب ھو ؟     
  
میڈیا نے بھی قوم کو خوش ہونے کا موقع نہیں دیا، مرحوم کے انتقال کی خبرعین اس وقت نشر کی جب پاکستانی کرکٹ ٹیم ساؤتھ افریقہ سے دوسرا ون  ڈے میچ جیتنے والی تھی جبکہ ڈرون حملہ اک دن پہلے ہوچکا تھا اور مرحوم بہتر حوروں سے ملاقات کیلے پہلے ھی روانہ ہوچکے تھے۔  کاش میڈیا کچھ دیر انتظار کرلیتا اور قوم کو کچھ دیر خوش ہونے کا موقع دے دیتا پر..... حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے.   


اگر فوربز میگزین اپنا سروے ممتاز قادری ( جو گورنر سلمان تاثیر مرحوم کے محافظ اور بڑے ادب سے قا تل بھی ہیں) کی پہلی پیشی کے دن کرتا تو پاکستان دنیا کی خوش باش ترین ریاستوں میں پہلے نمبر پر آجاتا..       

    اسی لئے تو کسی نے کیا خوب کہا ھے 
         خوشی کا کیا ھے بھروسہ کہاں بچھڑ جائے.....رہِ حیات میں غم کو بھی ھمسفر رکھنا







   Twitter ID : @fawadrehman